گھر کے آنگن میں ایک خاموشی سی چھائی تھی۔ چھوٹے بچے، جن کی کلکاریاں کبھی اس گھر کی جان تھیں، آج سہمی نظروں سے ایک دوسرے کو تک رہے تھے۔ ان کے معصوم دلوں پر ایک بوجھ تھا، ایک ڈر تھا۔
وجہ ظاہر تھی۔ گھر کے بڑے، یعنی ان کے والدین، ہر وقت ایک جھگڑے میں مصروف رہتے تھے۔ الفاظ تیروں کی طرح چلتے، آوازیں گرجتی بجلیوں کی مانند لگتیں، اور ان چھوٹے دلوں پر ہمیشہ ایک خوف طاری رہتا تھا۔
ایک رات، جب باہر بھی موسم طوفانی تھا اور گھر کے اندر بھی، بچوں کی چھوٹی سی بہن سہم کر اپنی ماں سے لپٹ گئی۔ "امی، کیا سب ٹھیک ہے؟" اس نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔
ماں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ جانتی تھی کہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن وہ اپنی بیٹی کو کیا جواب دیتی؟
بڑا بھائی، جو اب خود بھی بڑا ہو رہا تھا، خاموشی سے سب دیکھ رہا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خاموش نہیں رہے گا۔ اگلے دن، جب والدین پھر سے لڑنے لگے، وہ آگے بڑھا اور کہا، "بس، اب بہت ہو گیا!"
اس کی آواز میں اتنی شدت تھی کہ والدین بھی خاموش ہو گئے۔ بچے کے الفاظ ان کے دلوں میں اتر گئے۔ انہیں احساس ہوا کہ ان کی لڑائی صرف ان تک محدود نہیں ہے، بلکہ ان کے بچوں کی زندگیوں کو بھی تباہ کر رہی ہے۔
اس دن کے بعد، چیزیں آہستہ آہستہ بدلنے لگیں۔ والدین نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے مسائل کو بچوں کے سامنے نہیں لائیں گے۔ انہوں نے ایک دوسرے سے بات کرنا شروع کیا، ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کی۔
بچوں کے دلوں سے خوف تو فوراً نہیں گیا، لیکن انہیں محسوس ہوا کہ اب حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ گھر میں پھر سے ہنسی گونجنے لگی۔ بچوں نے سیکھا کہ مشکلات سے بھاگنا نہیں، بلکہ ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ اور والدین نے سیکھا کہ ان کی ذمہ داری صرف اپنی نہیں، بلکہ اپنے بچوں کی خوشی اور سلامتی کی بھی ہے۔
سبق: والدین کے جھگڑے بچوں پر برے اثرات مرتب کرتے ہیں۔اس لئے بچوں کے سامنے لڑنے سے گریز کریں کیونکہ بچے
وجہ ظاہر تھی۔ گھر کے بڑے، یعنی ان کے والدین، ہر وقت ایک جھگڑے میں مصروف رہتے تھے۔ الفاظ تیروں کی طرح چلتے، آوازیں گرجتی بجلیوں کی مانند لگتیں، اور ان چھوٹے دلوں پر ہمیشہ ایک خوف طاری رہتا تھا۔
ایک رات، جب باہر بھی موسم طوفانی تھا اور گھر کے اندر بھی، بچوں کی چھوٹی سی بہن سہم کر اپنی ماں سے لپٹ گئی۔ "امی، کیا سب ٹھیک ہے؟" اس نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔
ماں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ جانتی تھی کہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن وہ اپنی بیٹی کو کیا جواب دیتی؟
بڑا بھائی، جو اب خود بھی بڑا ہو رہا تھا، خاموشی سے سب دیکھ رہا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خاموش نہیں رہے گا۔ اگلے دن، جب والدین پھر سے لڑنے لگے، وہ آگے بڑھا اور کہا، "بس، اب بہت ہو گیا!"
اس کی آواز میں اتنی شدت تھی کہ والدین بھی خاموش ہو گئے۔ بچے کے الفاظ ان کے دلوں میں اتر گئے۔ انہیں احساس ہوا کہ ان کی لڑائی صرف ان تک محدود نہیں ہے، بلکہ ان کے بچوں کی زندگیوں کو بھی تباہ کر رہی ہے۔
اس دن کے بعد، چیزیں آہستہ آہستہ بدلنے لگیں۔ والدین نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے مسائل کو بچوں کے سامنے نہیں لائیں گے۔ انہوں نے ایک دوسرے سے بات کرنا شروع کیا، ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کی۔
بچوں کے دلوں سے خوف تو فوراً نہیں گیا، لیکن انہیں محسوس ہوا کہ اب حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ گھر میں پھر سے ہنسی گونجنے لگی۔ بچوں نے سیکھا کہ مشکلات سے بھاگنا نہیں، بلکہ ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ اور والدین نے سیکھا کہ ان کی ذمہ داری صرف اپنی نہیں، بلکہ اپنے بچوں کی خوشی اور سلامتی کی بھی ہے۔
سبق: والدین کے جھگڑے بچوں پر برے اثرات مرتب کرتے ہیں۔اس لئے بچوں کے سامنے لڑنے سے گریز کریں کیونکہ بچے
خاموش تماشائی نہیں ہوتے، وہ سب محسوس کرتے ہیں۔