Alibaba and the Magical Clock علی بابا اور جادوئی گھڑی

Uzaif Nazir

Scene showing moral lesson from Alibaba and the Magical Clock Urdu story


علی بابا ایک عام سا نوجوان تھا جو اپنے چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا۔ اس کا گاؤں ایک پہاڑی کے دامن میں بسا ہوا تھا، جہاں زندگی بہت سادہ اور پرامن تھی۔ علی بابا کو نئی چیزیں تلاش کرنے میں بہت دلچسپی تھی، اور وہ اکثر جنگلوں میں گھومتا رہتا تھا تاکہ کچھ نئی اور انوکھی چیزوں کو تلاش کر سکے۔
ایک دن، جب علی بابا جنگل میں گھوم رہا تھا، اسے ایک پرانی غار نظر آئی۔ غار کا منہ بڑے بڑے پتھروں سے ڈھکا ہوا تھا، لیکن علی بابا نے ہمت کر کے اندر جانے کا فیصلہ کیا۔ اندر جا کر اس نے دیکھا کہ غار کے ایک کونے میں ایک چمکتی ہوئی گھڑی پڑی ہوئی ہے۔ گھڑی بہت پرانی لگ رہی تھی، لیکن اس کی چمک دلکش تھی۔
علی بابا نے گھڑی اٹھائی اور اسے غور سے دیکھا۔ گھڑی پر کچھ عجیب علامتیں بنی ہوئی تھیں جو اسے سمجھ نہیں آ رہی تھیں۔ اچانک، گھڑی کی سوئیوں نے تیزی سے گھومنا شروع کر دیا، اور علی بابا کو ایک تیز روشنی نے گھیر لیا۔ جب روشنی غائب ہوئی تو علی بابا نے خود کو ایک بالکل نئی جگہ پر پایا۔
وہ ایک قدیم شہر میں تھا، جہاں لوگ عجیب کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ گلیوں میں گھوڑے اور بیل گاڑیاں چل رہی تھیں، اور عمارتیں بہت پرانی لگ رہی تھیں۔ علی بابا کو سمجھ میں آیا کہ وہ زمانے میں پیچھے چلا گیا ہے۔
علی بابا نے گھڑی کو دوبارہ دیکھا۔ گھڑی کی سوئیوں نے اب معمول کی رفتار سے چلنا شروع کر دیا تھا۔ اسے احساس ہوا کہ یہ گھڑی اسے زمانے میں سفر کرنے کی طاقت دیتی ہے۔ وہ بہت پرجوش تھا، لیکن ساتھ ہی اسے خوف بھی محسوس ہو رہا تھا۔
علی بابا نے شہر میں گھومنا شروع کیا۔ وہ لوگوں سے بات کرنے کی کوشش کرتا، لیکن کوئی اس کی بات نہیں سمجھتا تھا۔ اچانک، اس نے دیکھا کہ ایک چوروں کا گروہ کسی کا پیچھا کر رہا ہے۔ وہ قریب گیا تو دیکھا کہ وہ ایک لڑکی کو پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لڑکی بہت گھبرائی ہوئی تھی اور مدد کے لیے چیخ رہی تھی۔
علی بابا نے فوراً فیصلہ کیا کہ وہ لڑکی کی مدد کرے گا۔ وہ چھپ کر قریب گیا اور لڑکی کو چوروں کے چنگل سے آزاد کرانے میں کامیاب ہو گیا۔ لڑکی شہر کے ایک امیر تاجر کی بیٹی تھی۔ اس نے علی بابا کو بتایا کہ چور اسے اغوا کرنا چاہتے تھے۔
علی بابا نے لڑکی کو اس کے گھر پہنچایا۔ لڑکی کے والد بہت خوش ہوئے اور علی بابا کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے علی بابا کو اپنے گھر میں ٹھہرنے کی دعوت دی۔ علی بابا نے دعوت قبول کرلی، کیونکہ اسے ابھی تک یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنے زمانے میں کیسے واپس جائے گا۔
رات کو، علی بابا نے گھڑی کو دوبارہ دیکھا۔ اسے لگا کہ گھڑی کی سوئیوں نے دوبارہ تیزی سے گھومنا شروع کر دیا ہے۔ اچانک، وہ ایک اور جگہ پر پہنچ گیا۔ یہ جگہ بالکل مختلف تھی۔ یہاں پر جدید عمارتیں اور گاڑیاں تھیں۔ علی بابا کو سمجھ میں آیا کہ وہ مستقبل میں آ گیا ہے۔
مستقبل میں، علی بابا نے دیکھا کہ شہر بہت ترقی یافتہ ہے، لیکن لوگ بہت تنہا اور پریشان نظر آ رہے تھے۔ اس نے ایک بوڑھے آدمی سے بات کی، جس نے بتایا کہ یہ شہر ایک بڑی تباہی کے بعد دوبارہ بسایا گیا ہے۔ بوڑھے آدمی نے علی بابا کو بتایا کہ اس تباہی کی وجہ چالیس چور تھے، جنہوں نے شہر کو لوٹ کر تباہ کر دیا تھا۔
علی بابا کو اس لڑکی کی یاد آئی۔ اسے لگا کہ شاید یہ چور وہی ہیں جنہوں نے اس لڑکی کو اغوا کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ان چوروں کو روکے گا تاکہ مستقبل میں ہونے والی تباہی کو روکا جا سکے۔
علی بابا نے گھڑی کو دوبارہ استعمال کیا اور واپس قدیم شہر میں پہنچ گیا۔ اس نے اس لڑکی اور اس کے والد کو چوروں کے بارے میں بتایا۔ لڑکی کے والد نے علی بابا کی مدد کی، اور انہوں نے مل کر چوروں کا اڈہ ڈھونڈنے کا فیصلہ کیا۔
چوروں کا اڈہ ایک پہاڑی کے پیچھے تھا۔ علی بابا اور لڑکی کے والد نے چوروں کو چکمہ دے کر ان کے خزانے تک پہنچنے کا منصوبہ بنایا۔ انہوں نے چوروں کو یہ یقین دلایا کہ وہ بھی چور ہیں اور ان کے گروہ میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔
چوروں نے ان پر بھروسہ کرلیا۔ علی بابا نے موقع پا کر چوروں کے سردار کو پکڑ لیا۔ باقی چور بھاگ گئے، اور شہر کو ان کے شر سے نجات مل گئی۔
اس کے بعد علی بابا نے اس لڑکی اور اس کے والد کو الوداع کہا اور گھڑی کو استعمال کر کے اپنے زمانے میں واپس آ گیا۔
جب علی بابا اپنے گاؤں پہنچا تو اسے لگا جیسے یہ سب ایک خواب تھا۔ لیکن اس کے ہاتھ میں وہ پرانی گھڑی اب بھی موجود تھی۔ علی بابا نے فیصلہ کیا کہ وہ اس گھڑی کو کبھی استعمال نہیں کرے گا، کیونکہ اسے احساس ہو گیا تھا کہ ہر زمانے کے اپنے چیلنجز ہوتے ہیں، اور انسان کو اپنے حال میں رہ کر ہی مشکلات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔

سبق: ماضی سکھاتا ہے، مستقبل ترغیب دیتا ہے، لیکن حال وہ جگہ ہے جہاں ہمیں فرق پیدا کرنے کے لیے عمل کرنا چاہیے۔