سردیوں کی ایک صبح، جب دھند نے سیالکوٹ کے گلی کی کوچوں کو اپنی چادر میں لپیٹ رکھا تھا، ایک چھوٹا سا بچہ اپنے گھر کی چھت پر کھڑا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ستاروں جیسے خواب تھے، اور دل میں ایک عجیب سی بے چینی۔ وہ بچہ کوئی اور نہیں، محمد اقبال تھا، جو آگے چل کر علامہ اقبال کے نام سے جانا گیا۔
اقبال کے والد، شیخ نور محمد، ایک معمولی سے تاجر تھے، لیکن ان کے دل میں علم کا بے حد شوق تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے۔ اقبال کی ماں، امام بی بی، ایک نہایت ہی مہربان اور نیک دل خاتون تھیں۔ وہ اقبال کو ہمیشہ نیک کام کرنے کی تلقین کرتی تھیں۔
ایک دن، اقبال کے استاد سید میر حسن نے ان کے والد سے کہا، شیخ صاحب، آپ کا بیٹا بہت ذہین ہے۔ اگر اسے اچھی تعلیم دی جائے، تو یہ بہت بڑا آدمی بنے گا۔ یہ سن کر اقبال کے والد بہت خوش ہوئے، اور انہوں نے اقبال کو مزید تعلیم دلوانے کا فیصلہ کیا۔
اقبال نے اپنی ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہی حاصل کی۔ وہ ہمیشہ کلاس میں سب سے ذہین طالب علم سمجھے جاتے تھے۔ انہیں کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ اکثر اپنے دوستوں کو کہانیاں سناتے، اور ان کے خوابوں کی بات کرتے۔
جب اقبال نے میٹرک کا امتحان پاس کیا، تو انہیں لاہور جانے کا موقع ملا۔ لاہور، جو اس وقت علم و ادب کا گہوارہ تھا، اقبال کے لیے ایک نئی دنیا تھی۔ وہاں انہوں نے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا، اور فلسفہ اور ادب کی تعلیم حاصل کی۔
لاہور میں اقبال کو اپنے استاد سر تھامس آرنلڈ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ سر تھامس نے اقبال کو مغربی فلسفہ سے متعارف کرایا، اور انہیں اپنے خیالات کو آزادانہ طور پر بیان کرنے کی ترغیب دی۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد، اقبال نے یورپ جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ کیمبرج یونیورسٹی گئے، جہاں انہوں نے فلسفہ اور قانون کی تعلیم حاصل کی۔ وہاں انہوں نے مغربی مفکرین کے نظریات کا گہرائی سے مطالعہ کیا، لیکن انہیں احساس ہوا کہ مغرب کی ترقی کے باوجود، وہاں روحانیت کا فقدان ہے۔
یورپ میں رہتے ہوئے، اقبال کو اپنی مشرقی تہذیب اور اسلامی تعلیمات کی اہمیت کا احساس ہوا۔ وہ سمجھ گئے کہ مسلمانوں کو اپنی شناخت اور خودی کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔
یورپ سے واپس آکر، اقبال نے اپنے خیالات کو شاعری کے ذریعے بیان کرنا شروع کیا۔ ان کی شاعری میں خودی، عشق، اور امت مسلمہ کی بیداری کے موضوعات نمایاں تھے۔ انہوں نے اپنی مشہور کتاب بانگ درا لکھی، جس میں انہوں نے مسلمانوں کو جگانے اور انہیں اپنی صلاحیتوں کا احساس دلانے کی کوشش کی۔
اقبال کی شاعری نے نوجوانوں کو بہت متاثر کیا۔ ان کے اشعار ہر خاص و عام کی زبان پر تھے۔ لوگ انہیں شاعر مشرق کہنے لگے۔
سال 1930 میں اقبال نے الہ آباد میں ایک تاریخی خطبہ دیا، جس میں انہوں نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا تصور پیش کیا۔ انہوں نے کہا، ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک الگ ملک کی ضرورت ہے، جہاں وہ اپنے دین اور تہذیب کے مطابق زندگی گزار سکیں۔
یہ خطبہ مسلمانوں کے لیے ایک نئی امید بن گیا۔ اقبال کے اس خواب نے بعد میں پاکستان کی شکل اختیار کی۔
اقبال اپنی زندگی کے آخری دنوں میں بھی مسلمانوں کی بیداری کے لیے کام کرتے رہے۔ وہ بیمار ہو گئے، لیکن ان کے خواب اور خیالات ہمیشہ زندہ رہے۔ 21 اپریل 1938 کو، وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے، لیکن ان کی شاعری اور فلسفہ آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہے۔
علامہ اقبال کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ خودی، کو پہچانو، اپنے خوابوں پر یقین رکھو، اور کبھی ہمت نہ ہارو۔ انہوں نے ہمیں سکھایا کہ حقیقی کامیابی صرف مادی ترقی میں نہیں، بلکہ اپنی روحانی اور اخلاقی قدروں کو برقرار رکھنے میں ہے۔
علامہ اقبال کی کہانی صرف ایک شخص کی کہانی نہیں، بلکہ ایک قوم کے عزم اور حوصلے کی کہانی ہے۔ ان کے خوابوں نے ہمیں ایک نئی راہ دکھائی، اور ان کی شاعری آج بھی ہمارے دلوں کو گرماتی ہے۔
سبق: خودی کو پہچانو، اپنے خوابوں کے پیچھے بھاگو، اور کبھی ہمت نہ ہارو۔ حقیقی کامیابی خود شناسی اور اپنی پہچان پر قائم رہنے میں ہے۔