سائنسدانوں نے ایک ایسی دریافت کر لی ہے جو شاید انسانیت کی تاریخ کی سب سے بڑی خبر بن جائے۔ یہ کوئی عام دریافت نہیں، بلکہ ایک ایسا راز ہے جو اربوں سال سے ایک سرخ سیارے کی سطح کے نیچے چھپا ہوا تھا۔ ہاں، ہم بات کر رہے ہیں مریخ کی، جسے ہم مارس بھی کہتے ہیں۔ کیا واقعی وہاں زندگی کے آثار ملے ہیں؟ کیا ہم کبھی زمین کے علاوہ کسی اور جگہ زندگی ڈھونڈ لیں گے؟ یہ کہانی شروع ہوتی ہے ایک ایسے سوال سے جو صدیوں سے انسان کے ذہن میں گونجتا آیا ہے۔
مریخ ہمیشہ سے انسانوں کے لیے پراسرار رہا ہے۔ سائنسدانوں نے اسے زمین جیسا سیارہ قرار دیا، لیکن اب ہم جس انکشاف کے قریب پہنچے ہیں، وہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ناسا کے خلائی گاڑیوں اور جدید ٹیکنالوجی نے مریخ کی سطح کے نیچے پانی کے وسیع ذخائر ڈھونڈ لیے ہیں۔ لیکن یہ کوئی عام پانی نہیں، بلکہ نمکین پانی ہے جو زیر زمین جھیلوں کی شکل میں موجود ہے۔ کیا یہ پانی کبھی سطح پر بہتا تھا؟ کیا اس میں کبھی زندگی پنپتی تھی؟
سال 2015 میں ناسا کے مارس ریکونائسنس اوربیٹر نے مریخ کی سطح پر عجیب و غریب تاریک دھاریاں دیکھیں جو موسمی تبدیلی کے ساتھ بدلتی تھیں۔ سائنسدانوں نے تحقیق کی تو پتا چلا کہ یہ نمکین پانی کے بہاؤ کے نشانات ہیں جو گرمیوں میں پگھل کر بہتے ہیں اور سردیوں میں جم جاتے ہیں۔ یہ دریافت ایک بڑا ثبوت تھی کہ مریخ پر مائع پانی موجود ہے۔ لیکن اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ تھی کہ 2023 میں یورپی خلائی ایجنسی کے مارس ایکسپریس اوربیٹر نے زیر زمین ایک بڑی جھیل دریافت کی جو تقریباً 20 کلومیٹر چوڑی تھی۔
لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس پانی میں زندگی موجود ہو سکتی ہے؟ زمین پر جہاں کہیں بھی پانی ہوتا ہے، وہاں زندگی کے امکانات ہوتے ہیں۔ کیا مریخ پر بھی ایسا ہو سکتا ہے؟ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اگرچہ مریخ کی سطح پر تابکاری بہت زیادہ ہے اور وہاں کا ماحول زندگی کے لیے انتہائی سخت ہے، لیکن زیر زمین جھیلیں محفوظ ہو سکتی ہیں۔ شاید وہاں مائیکروبیل زندگی موجود ہو جو ہماری زمین کے انتہائی سخت حالات میں زندہ رہنے والے جرثوموں جیسی ہو۔
ابھی تک ہمارے پاس براہ راست ثبوت نہیں ہے کہ مریخ پر زندگی ہے، لیکن تمام اشارے اسی طرف جاتے ہیں۔ مستقبل میں جب انسان مریخ پر اترے گا، شاید ہمیں وہاں زندگی کے واضح نشانات مل جائیں۔ کیا ہم کبھی مریخ پر خلائی بستیاں بنا پائیں گے؟ کیا ہماری آنے والی نسلیں سرخ سیارے پر رہائش پذیر ہو جائیں گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ابھی تک حل طلب ہیں۔
یہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ہر نئی تحقیق، ہر نئی خلائی مہم ہمیں اس راز سے قریب تر کر رہی ہے۔ شاید ایک دن ہم یہ اعلان کر سکیں کہ ہم کائنات میں تنہا نہیں۔ اور اگر ایسا ہوا، تو یہ انسانیت کی سب سے بڑی دریافت ہوگی۔
سبق: کائنات میں ہماری سوچ سے بھی زیادہ راز چھپے ہیں اور کائنات اپنے راز اُنہیں بتاتی ہے جو کبھی تلاش کرنا نہیں چھوڑتے!