سال 1857 تھا ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف غم و غصہ اپنے عروج پر تھا۔ ہر طرف بغاوت کی آگ بھڑک رہی تھی، اور لوگ آزادی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ ایسے ہی ایک بہادر رہنما تھے مولوی احمد اللہ شاہ، جنہیں لوگ پیار سے مولوی کے نام سے پکارتے تھے۔
مولوی احمد اللہ شاہ فیض آباد کے ایک مشہور عالم تھے۔ ان کی تقریریں لوگوں کے دلوں میں آگ لگا دیتی تھیں۔ وہ نہ صرف علم کے دریا تھے، بلکہ ایک بہادر جنگجو بھی تھے۔ جب انگریزوں نے ہندوستان پر اپنا قبضہ مضبوط کرنا شروع کیا تو مولوی احمد اللہ شاہ نے فیصلہ کیا کہ وہ بیٹھ کر تماشہ نہیں دیکھیں گے۔
ایک دن، مولوی احمد اللہ شاہ نے فیض آباد کے لوگوں کو اکٹھا کیا اور ان سے کہا، ہمارا ملک ہمارا گھر ہے۔ اگر ہم اپنے گھر کو بچانے کے لیے نہیں اٹھیں گے، تو پھر کون اٹھے گا؟ انگریز ہمیں غلام بنانا چاہتے ہیں، لیکن ہم انہیں یہ بتا دیں گے کہ ہندوستان کے لوگ زندہ ہیں، اور وہ اپنی آزادی کے لیے لڑ سکتے ہیں۔
یہ سن کر لوگوں کے دلوں میں جوش بھر گیا۔ مولوی احمد اللہ شاہ کی قیادت میں، فیض آباد کے لوگوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔
مولوی احمد اللہ شاہ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک چھوٹی سی فوج تیار کی۔ ان کے پاس جدید ہتھیار نہیں تھے، لیکن ان کا جذبہ اور عزم بے مثال تھا۔ انہوں نے فیض آباد کے گرد مورچے بنا لیے اور انگریزوں کا انتظار کرنے لگے۔
کچھ ہی دنوں بعد، انگریز فوجی فیض آباد پہنچ گئے۔ انہوں نے شہر پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن مولوی احمد اللہ شاہ اور ان کے ساتھیوں نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ جنگ کئی گھنٹوں تک جاری رہی۔ مولوی احمد اللہ شاہ نے اپنے ساتھیوں کو ہمت دلائی اور خود بھی میدان جنگ میں بہادری سے لڑے۔
انگریزوں کو یہ توقع نہیں تھی کہ ایک چھوٹے سے شہر کے لوگ اتنی بہادری سے لڑیں گے۔ آخرکار، انہیں پیچھے ہٹنا پڑا۔ فیض آباد کے لوگوں نے خوشی سے نعرے لگائے اور مولوی احمد اللہ شاہ کو گلے لگایا۔
لیکن انگریز ہار ماننے والے نہیں تھے۔ انہوں نے ایک اور چال چلی۔ انہوں نے مولوی احمد اللہ شاہ کو پکڑنے کے لیے ایک بڑی رقم کا انعام رکھا۔ کچھ غداروں نے رقم کے لالچ میں آ کر مولوی احمد اللہ شاہ کے بارے میں انگریزوں کو معلومات دے دیں۔
ایک رات، جب مولوی احمد اللہ شاہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ جنگل میں پناہ لے رہے تھے، انگریزوں نے انہیں گھیر لیا۔ مولوی احمد اللہ شاہ نے بہادری سے مقابلہ کیا، لیکن ان کے پاس ہتھیار اور ساتھی کم تھے۔ آخرکار، انگریزوں نے انہیں گرفتار کر لیا۔
انگریزوں نے مولوی احمد اللہ شاہ کو سخت سزائیں دیں، لیکن وہ ان کے عزم کو توڑ نہیں سکے۔ انہوں نے کہا، تم میرا جسم توڑ سکتے ہو، لیکن میرا جذبہ نہیں۔ ہندوستان کو آزادی مل کر رہے گی، اور تمہارا راج ختم ہو جائے گا۔
آخرکار، انگریزوں نے مولوی احمد اللہ شاہ کو پھانسی دے دی۔ لیکن ان کی شہادت نے ہندوستان کے لوگوں کے دلوں میں آزادی کی آگ بھڑکا دی۔ ان کی قربانی نے 1857 کی جنگ آزادی کو ایک نئی طاقت بخشی۔
سبق: آزادی کبھی تحفے میں نہیں ملتی، یہ قربانی اور پختہ عزم سے حاصل ہوتی ہے۔ حقیقی ہمت والے وہ ہیں جو حق کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، چاہے حالات کتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں۔