دلی کی گلیاں خاموش تھیں۔ ہوا میں ایک عجیب سی اداسی تھی، جیسے وقت نے سانس روک رکھا ہو۔ شہر کے پرانے محل میں ایک بوڑھا بادشاہ اپنی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔
اس کی آنکھوں میں ماضی کے خواب تیر رہے تھے، اور ہونٹوں پر ایک اداس مسکراہٹ۔ وہ بہادر شاہ ظفر تھا، مغلیہ سلطنت کا آخری بادشاہ۔ جو 24 اکتوبر 1775 کو دلی میں پیدا ہوا تھا۔
ظفر یہ یاد کر رہا تھا کہ جب وہ چھوٹا تھا۔
اس وقت دلی کی گلیاں رنگین تھیں، اور محل میں ہر طرف خوشیاں بکھری ہوتی تھیں۔ مغل سلطنت اپنے عروج پر تھی، اور ہر طرف اس کی طاقت کا ڈنکا بجتا تھا۔ لیکن اب؟ اب تو وہ ایک نام کے بادشاہ تھے۔ انگریزوں نے سلطنت اپنے قبضے میں لے لی تھی۔
ایک دن، محل میں اچانک شور مچ گیا۔ انگریز فوجیوں نے محل کے دروازے توڑ دیے اور اندر گھس آئے۔ ظفر نے دیکھا کہ ان کے سپاہی بے بس کھڑے ہیں۔ کسی کے پاس اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ انگریزوں کا مقابلہ کر سکے۔ انگریز کمانڈر نے ظفر کے سامنے کاغذ رکھا اور کہا دستخط کر دو، ورنہ تمہاری سلطنت کا نام و نشان مٹ جائے گا۔
ظفر کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ انہوں نے کاغذ پر نظر ڈالی۔ یہ ایک معاہدہ تھا، جس میں لکھا تھا کہ وہ اپنی سلطنت انگریزوں کے حوالے کر رہے ہیں۔ ان کے دل میں طوفان برپا تھا، لیکن ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ انہوں نے دستخط کر دیے۔
اس رات، ظفر نے محل کی چھت پر کھڑے ہو کر دلی کو دیکھ رہا تھا۔ شہر کی روشنیاں مدھم پڑ چکی تھیں، جیسے وہ بھی ظفر کے غم میں شریک ہوں۔ اس نے اپنی شاعری کی کتاب نکالی اور اپنا ایک مشہور شعر لکھا
کچھ دنوں بعد، انگریزوں نے ظفر کو گرفتار کر لیا۔ انہیں دلی سے نکال کر رنگون بھیج دیا گیا۔ وہاں، ایک تنہا اور ویران جگہ پر، ظفر نے اپنی زندگی کے آخری دن گزارے۔ ان کے ساتھ صرف ان کی شاعری تھی، جو ان کے دل کا درد بیان کرتی تھی۔ بہادر شاہ ظفر نے اپنے خوابوں کو ٹوٹتے ہوئے دیکھا مگر کچھ کر نہ سکا۔
پھر ایک دن 7 نومبر 1862 کو رنگون میں بہادر شاہ ظفر انتقال پاگیا۔ ظفر کی آنکھیں بند ہو گئیں، اور ایک عظیم سلطنت کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا لیکن ظفر کی شاعری آج بھی ہمارے دلوں کو چھوتی ہے۔
سبق: زندگی میں ہمیشہ عروج نہیں رہتا ہر عروج کے بعد زوال آتا ہے۔