Cosmic Question Mark Discovered by Webb Telescope ویب ٹیلی اسکوپ نے خلا میں سوالیہ نشان دریافت کیا

Uzaif Nazir

Scene showing moral lesson from Cosmic Question Mark Discovered by Webb Telescope Urdu story

سائنسدانوں کی ایک چھوٹی سی ٹیم نے جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ کے ڈیٹا کا جائزہ لیتے ہوئے ایک ایسی چیز دیکھی کہ ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ خلا کے اس تاریک اور سنسان کونے میں، جہاں صرف ستاروں اور کہکشاؤں کی موجودگی کی توقع تھی، وہاں کچھ اور ہی تھا۔ ایک واضح، بڑا سا سوالیہ نشان؟ بالکل ویسا ہی جیسا ہم روزمرہ کی تحریروں میں استعمال کرتے ہیں۔
ڈاکٹر علی احمد، جو کہ اس منصوبے کے سربراہ تھے، انہوں نے اپنی کرسی سے اچانک پیچھے ہٹتے ہوئے کہا، یہ تو حیرت انگیز ہے! میں نے اپنی پوری زندگی میں ایسی چیز نہیں دیکھی۔ ان کے ہاتھوں میں تھرتھراہٹ تھی جب وہ اسکرین کو دوبارہ چیک کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ بیٹھی ڈاکٹر سارہ جمال نے اپنے چشمے کو ٹھیک کرتے ہوئے کہا، یہ کوئی ٹیکنیکل خرابی نہیں ہو سکتی۔ ہم نے اسے مختلف زاویوں سے دیکھا ہے، مختلف فلٹرز استعمال کیے ہیں، لیکن یہ سوالیہ نشان ہر بار واضح نظر آتا ہے۔
یہ واقعہ 2023 کا ہے جب دنیا کی سب سے جدید خلائی دوربین نے ایک ایسی چیز دریافت کی جس نے سائنسی برادری کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ کوئی عام ستارہ نہیں تھا، نہ ہی کوئی معمولی کہکشاں، بلکہ ایک ایسی ساخت تھی جو مکمل طور پر ایک سوالیہ نشان کی شکل اختیار کیے ہوئے تھی۔ اس کی لمبائی تقریباً 1.3 نوری سال تھی، جو کہ ہماری کہکشاں کے سب سے بڑے ستاروں سے بھی کہیں زیادہ بڑی تھی۔
سائنسدانوں نے اسے کاسمک کوئسچن مارک کا نام دیا۔ ابتدائی تجزیے سے پتا چلا کہ یہ ساخت زمین سے تقریباً 1500 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ جو کچھ بھی ہم اب دیکھ رہے ہیں، وہ دراصل 1500 سال پہلے کا منظر ہے۔
ٹیم نے اس دریافت کو مزید جانچنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے۔ سب سے پہلے تو انہوں نے یہ چیک کیا کہ کہیں یہ کوئی ٹیکنیکل خرابی تو نہیں۔ لیکن جب مختلف دوربینوں سے اس کی تصدیق ہو گئی تو انہیں یقین ہو گیا کہ یہ ایک حقیقی چیز ہے۔ پھر انہوں نے اس کی ساخت کا تجزیہ شروع کیا۔ یہ دو بڑے اجزاء پر مشتمل ہے، ڈاکٹر علی نے اپنے نوٹس میں لکھا۔ اوپر والا حصہ ایک کامل دائرے کی طرح ہے، جبکہ نیچے والا حصہ ایک نقطے کی طرف جاتی ہوئی ایک لکیر ہے۔ یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا ہم سوالیہ نشان بناتے ہیں۔
سائنسدانوں نے اس کی ممکنہ وضاحتوں پر غور کرنا شروع کیا۔ کچھ کا خیال تھا کہ شاید یہ دو کہکشاؤں کے ٹکرانے کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ایسے ٹکراؤ سے اتنی منظم ساخت بننے کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے۔ دوسرے سائنسدانوں نے اندازہ لگایا کہ یہ گریویٹی کے کسی عجیب اثر کا نتیجہ ہو سکتا ہے، جسے ہم اب تک سمجھ نہیں پائے ہیں۔
ایک ہفتے تک مسلسل تحقیق کے بعد ڈاکٹر سارہ نے ایک اور حیرت انگیز چیز دریافت کی کہ اس سوالیہ نشان کے بالکل نیچے کچھ اور ہے! انہوں نے زوم کرتے ہوئے کہا۔ وہاں چھوٹے چھوٹے ستاروں کا ایک گروپ ہے جو ایک خاص ترتیب میں ہیں۔ ڈاکٹر علی نے حیرت سے کہا یہ تو بالکل ایسے لگ رہا ہے جیسے کوئی جواب دے رہا ہو۔
کیا یہ واقعی کوئی جواب تھا؟ یا محض ایک اتفاق؟ سائنسدان اس پر اب تک بحث کر رہے ہیں۔ لیکن ایک بات واضح تھی کہ کائنات ہمیں ایک بار پھر حیران کر چکی تھی۔
اس دریافت نے سائنسی برادری میں ہلچل مچا دی۔ بڑے بڑے تحقیقی جرائد نے اس پر مضامین شائع کیے۔ ٹیلی ویژن چینلوں پر اس پر خصوصی پروگرامز بنائے گئے۔ سوشل میڈیا پر بھی یہ بات ویرل ہوگی۔
کچھ لوگوں نے اسے کسی اعلیٰ ذہین مخلوق کا کام قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ شاید کوئی ترقی یافتہ تہذیب ہمیں کوئی پیغام دینا چاہتی تھی۔ دوسرے سائنسدانوں نے اس خیال کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ محض ایک قدرتی مظہر ہے جسے ہم ابھی تک سمجھ نہیں پائے ہیں۔
ایک دلچسپ بات یہ تھی کہ جب ماہرین فلکیات نے ماضی کے ڈیٹا کو چیک کیا تو انہیں پتا چلا کہ یہ ساخت کم از کم پچاس سال سے وہاں موجود ہے۔ لیکن اس سے پہلے کسی نے اس پر توجہ نہیں دی تھی کیونکہ ہمارے پاس جیمز ویب جیسی طاقتور ٹیلی سکوپ نہیں تھی۔
اس دریافت نے کئی نئے سوالات کو جنم دیا۔ کیا کائنات ہمیں کوئی پیغام دے رہی ہے؟ کیا ہم واقعی اکیلے ہیں؟ یا پھر یہ سب محض ایک اتفاق ہے؟ ان سوالات کے جوابات تو شاید ابھی تک ہمارے پاس نہیں ہیں، لیکن ایک بات یقینی ہے کہ یہ دریافت ہماری کائنات کے بارے میں سمجھ کو مزید گہرا کرتی ہے۔
آج بھی جب سائنسدان جیمز ویب ٹیلی سکوپ کی مدد سے خلا کو دیکھتے ہیں، تو ان کی نظریں اس جگہ ضرور جاتی ہیں جہاں یہ عجیب و غریب سوالیہ نشان موجود ہے۔ شاید ایک دن ہمیں اس کا جواب مل جائے۔ یا پھر یہ ہمیشہ کے لیے ایک راز ہی بن کر رہ جائے۔
کائنات ہمیں یہ بتا رہی ہے کہ ہماری سائنس ابھی بہت چھوٹی ہے۔ ہر جواب کے بعد نئے سوال سامنے آتے ہیں۔ اور شاید یہی سائنس کا حسن ہے۔
تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ سوالیہ نشان کسی اور دنیا کی مخلوق کا بھیجا ہوا پیغام ہے؟ یا پھر یہ محض قدرت کا ایک حیرت انگیز کھیل؟ کائنات ہم سے کہہ رہی ہے کہ ہم ابھی بہت کچھ جاننے سے رہ گئے ہیں۔
اس دریافت کے بعد سے، سائنسدانوں نے خلا میں مزید ایسی عجیب و غریب ساختوں کی تلاش شروع کر دی ہے۔ کون جانے، شاید ہمیں کسی دن خلا میں کوئی اور علامت مل جائے جو ہماری سمجھ سے بھی بالاتر ہو۔
ایک بات تو طے ہے کہ کائنات ہمیں ہر روز حیران کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ ہمیں صرف آنکھیں کھلی رکھنے کی ضرورت ہے۔ اور جیمز ویب ٹیلی سکوپ جیسے جدید آلات کی مدد سے، شاید ہم کچھ اور حیرت انگیز دریافتیں کر سکیں۔

سبق: کائنات اپنے اندر ایسے راز رکھتی ہے جو ہماری سوچ سے کہیں آگے ہیں اور ہر جواب ایک نئے سوال کو جنم دیتا ہے۔