ایک سترہ سال کا لڑکا اپنے کمرے میں بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے پر غصہ، آنکھوں میں چمک اور دل میں ایک عجیب سی بے چینی تھی۔ نیچے سے اس کے باپ کی آواز آ رہی تھی، تم ہمیشہ اپنی من مانی کرتے ہو! کبھی تو گھر کے اصولوں کو مانو!
لڑکے نے اپنا ہیڈ فون اتار کر پھینک دیا اور کہا یہ اصول نہیں، ظلم ہے! تم مجھے قید کرنا چاہتے ہو؟ میں اب یہاں ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتا!
ماں سیڑھیاں چڑھتی ہوئی آئی، بیٹا، تم کیا کہہ رہے ہو؟ یہ رات کا وقت ہے! لیکن وہ پہلے ہی اپنا چھوٹا سا بیگ اٹھا کر دروازے کی طرف بھاگ چکا تھا۔ دروازے کی کھٹکھٹاہٹ نے گھر کی خاموشی کو توڑ دیا۔
سڑک پر چلتے ہوئے اسے پہلی بار لگا جیسے وہ واقعی آزاد ہو گیا ہے۔ اس نے سوچا کہ اب میں جو چاہوں گا کروں گا، کسی کی ڈانٹ نہیں، کسی کی پابندی نہیں! ہوا کے جھونکے اس کے بالوں سے کھیل رہے تھے۔
لیکن جلد ہی اسے احساس ہوا کہ آزادی کا یہ احساس دھوکہ ہے۔ شہر کی راتیں اتنی پر سکون نہیں تھیں جتنی وہ سمجھتا تھا۔ ایک پارک کے بینچ پر بیٹھے بیٹھے اس کی آنکھ لگ گئ۔ نیند اور تھکاوٹ نے اسے گھیر لیا۔ اچانک کسی نے اس کے کندھے کو جھٹکادیا اور کہا اٹھو یہاں سے! یہ تمہارا گھر نہیں ہے!
وہ ایک پہرے دار تھا جو اسے گھور رہا تھا۔ وہ اٹھا اور ادھر ادھر بھٹکنے لگا۔ آخرکار وہ ایک بس اسٹیشن پر جا کر سو گیا۔
صبح اس کی آنکھ بھوک کی وجہ سے کھلی۔ پیٹ میں درد ہو رہا تھا۔ اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اس کی جیب میں صرف پانچ سو روپے تھے۔ وہ ایک چھوٹی سی دکان پر گیا اور روٹی کھائی۔ کھاتے وقت اسے ماں کے ہاتھ کے پکے کھانے یاد آئے۔ وہ کس قدر مزیدار ہوتے تھے!
پھر اس نے سوچا کام کے بغیر وہ زیادہ دن اپنی دیکھ بھال نہیں کرسکتا۔ تو وہ ایک ریسٹورنٹ میں گیا جہاں اس نے برتن دھونے کی نوکری مانگی۔ مالک نے اسے گھور کر دیکھا، تمہاری عمر بہت کم ہے۔ کیا تمہارے گھر والے تمہیں کام پر بھیج رہے ہیں؟
لڑکا جھوٹ بولنے لگا، نہیں... میرا... میرا باپ... مالک نے کہا، جاؤ پہلے گھر سے اجازت لے کر آؤ۔
اس دن اسے کوئی نوکری نہیں ملی۔ شام تک وہ تھک کر چور ہو گیا۔ وہ ایک پرانی عمارت کے نیچے بیٹھ کر سوچنے لگا، کیا میں واقعی غلط تھا؟
اس دن اس کی ملاقات دو لڑکوں سے ہوئی جو اس سے عمر میں تھوڑے بڑے لگ رہے تھے۔ انہوں نے پوچھا، تمہیں پیسے چاہئیں؟ ہمارے ساتھ چلو، ہم تمہیں کام دکھاتے ہیں۔
وہ لڑکا ان کے ساتھ چل پڑا۔ وہ اسے ایک بازار میں لے گئے اور ایک دکان سے چوری کرنے کو کہا۔ اس لڑکے نے ہچکچا کر کہا نہیں... میں یہ نہیں کر سکتا! ان لڑکوں نے کہا، تو پھر بھوکے مرنا! اور اسے دھکا دے کر چلے گیے۔
رات کو وہ ایک بار پھر بس اسٹیشن میں سویا۔ اس بار اس کے خواب میں اس کا گھر، اس کی ماں اور اس کا کمرہ نظر آیا۔ وہ نیند میں ہی رو پڑا۔
صبح اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ایمانداری سے کوئی کام ڈھونڈے گا۔ لیکن اسے کوئی کام نہ ملا پر ایک چائے والے نے اس پر ترس کھا کر اسے کچھ کھانے کو دیا۔
چائے والے نے اس کی حالت دیکھ کر اس کے گھر والوں کے بارے میں پوچھا تو لڑکے نے سر جھکا لیا۔ وہ کئی دنوں سے نہایا نہیں تھا، اس کے کپڑے گندے ہو چکے تھے۔ اچانک اسے احساس ہوا کہ وہ کس قدر غلط تھا۔
شام ہوتے ہی وہ اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔ راستے میں اسے ڈر لگ رہا تھا کہ کیا گھر والے اسے معاف کر دیں گے؟ کیا وہ اسے گھر کے اندر آنے دیں گے؟
گھر کا دروازہ نظر آیا تو اس کی سانس تیز ہو گئی۔ دروازہ کھلا تھا اور ماں باہر کھڑی تھی، جیسے کسی کا انتظار کر رہی ہو۔ جب ماں نے اپنے بیٹے کو دور سے آتے دیکھا تو دوڑ کر اس سے لپٹ گئی۔
تم ٹھیک ہو؟ ہم نے تمہیں ہر جگہ ڈھونڈا! تمہارے باپ نے کئی راتیں گاڑی میں گزار دیں تمہیں ڈھونڈتے ہوئے! لڑکے کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ندیاں بہہ نکلیں۔ میں... میں بہت غلط تھا، امی۔
باپ اندر سے نکلا۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں۔ اس نے صرف اتنا کہا، اندر آؤ... تمہارے لیے کھانا رکھا ہوا ہے۔
کھر میں داخل ہوتے ہی لڑکے کی نظر دیوار پر لگی پرانی تصویر پر پڑی۔ یہ اس کے بچپن کی تصویر تھی جب وہ چھوٹا بچہ تھا اور اپنے ماں باپ کے درمیان کھلکھلا کر ہنس رہا تھا۔ اس کا دل بھر آیا۔ مجھے معاف کر دیں، اس نے گڑگڑا کر کہا۔
باپ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا گھر وہ جگہ ہے جہاں غلطیاں معاف ہو جاتی ہیں۔ بس اب ہمیں اعتماد دے دو کہ تم نے سبق سیکھ لیا ہے اور تم پھر کبھی ایسا نہیں کرو گے۔ لڑکے نے ہاں میں سر ہلایا۔
رات کو جب وہ اپنے نرم بستر پر لیٹا تو اس نے پہلی بار محسوس کیا کہ گھر کی چار دیواری کوئی پابندی نہیں، بلکہ ایک محفوظ پناہ گاہ ہے۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور سکون نیند سو گیا۔
سبق: چاہے حالات کتنے ہی سخت ہوں، گھر وہ جگہ ہے جہاں محبت، معافی اور تحفظ ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ اپنے گھر والوں کی قدر کرو، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔