The Secret of Emperor Akbar شہنشاہ اکبر کا راز

Uzaif Nazir

Scene showing moral lesson from The Secret of Emperor Akbar Urdu story

آگرہ کے شاہی قلعے کے باہر ہر صبح ایک اندھی فقیرہ آتی۔ اس کے سفید بال، جھکی کمر، اور پرانے کپڑے دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ عورت کبھی محل کی رونق رہی ہوگی۔ وہ ہر روز شہنشاہ اکبر کے لیے ایک چھوٹا سا کاغذ لاتی، جس پر کچھ لکھا ہوتا۔
ایک صبح محل کے دروازے پر ہمیشہ کی طرح وہ بوڑھی اندھی فقیرہ کھڑی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ہمیشہ کی طرح ایک چھوٹا سا کاغذ تھا جسے وہ شہنشاہ اکبر کے لیے لائی تھی۔  
قلعے کے اندر، شہزادے سلیم اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہے تھے۔ وہ روزانہ اس فقیرہ کو آتے جاتے دیکھتے، لیکن آج اس کے دل میں تجسس پیدا ہوا کہ یہ عورت کون ہے جو روزانہ میرے والد کے لیے کاغذ لاتی ہے؟ اس نے اپنے قریب کھڑے وزیر سے پوچھا۔ وزیر نے جھک کر جواب دیا، حضور، یہ فقیرہ تو پچھلے بیس سال سے روزانہ آتی ہے۔ شہنشاہ سلامت خود اس کا کاغذ لیتے ہیں اور کسی کو نہیں بتاتے کہ اس میں کیا لکھا ہوتا ہے۔
رات کے پچھلے پہر جب سارا قلعہ گہری نیند سو رہا تھا، تو شہزادے سلیم چپکے سے اپنے والد کے کمرے کی طرف گیے۔ دروازے سے جھانکتے ہوئے انہوں نے دیکھا کہ بادشاہ اکبر فقیرہ کے لائے ہوئے کاغذ کو پڑھ کر روتے ہوئے اسے اپنے سینے سے لگا رہے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر سلیم کے دل میں ایک عجیب سی بے چینی پیدا ہوئی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ کل وہ خود اس کاغذ کو پڑھ کر دیکھے گا کہ آخر اس میں ایسا کیا لکھا ہوتا ہے جو اس کے طاقتور باپ کو رلا دیتا ہے۔  
اگلے دن جب فقیرہ اپنا کاغذ دے کر چلی گئی، سلیم نے موقع پا کر وہ کاغذ اپنے والد کے تکیے کے نیچے سے نکال لیا۔ کاغذ پر صرف ایک ہی جملہ لکھا تھا، تمہاری ماں تمہیں ہمیشہ یاد کرتی ہے۔ یہ جملہ پڑھتے ہی سلیم کے ہاتھوں سے کاغذ گر پڑا۔ وہ سوچنے لگا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مریم الزمانی بیگم اس کے والد کی حقیقی ماں نہ ہو؟ اس کے ذہن میں ہزاروں سوال گھومنے لگے۔  
اگلے ہی روز جب فقیرہ معمول کے وقت پر نہیں آئی تو بادشاہ اکبر پریشان ہو گئے۔ شہنشاہ اکبر نے کسی سے پوچھا تو پتا چلا کہ وہ بوڑھی عورت رات کو انتقال کر گئی ہے۔ یہ سنتے ہی اکبر نے چالیس دن تک دربار بند کرنے کا حکم دے دیا۔ تمام درباری حیران تھے کہ ایک معمولی فقیرہ کی موت پر شہنشاہ نے اتنا بڑا ماتم کیوں کیا ہے؟  
سلیم نے اپنے سب سے وفادار خادم کو بلایا اور اسے خفیہ حکم دیا کہ وہ اس فقیرہ کی قبر ڈھونڈ کر اس میں دفن ہونے والی چیزوں کی تحقیقات کرے۔ خادم نے آگرہ کے پرانے قبرستان میں کئی دن تک کھوج لگائی اور آخرکار اس عورت کی قبر ڈھونڈ نکالی۔ رات کے اندھیرے میں اس نے قبر کھودی تو اسے ایک چھوٹا سا صندوق ملا۔  
صندوق کو کھولتے ہی سلیم کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ اس میں ایک پرانی تصویر تھی جس میں جوانی کا اکبر اور ایک خوبصورت عورت کھڑی تھی۔ تصویر کے پیچھے لکھا تھا، میرا بیٹا اکبر، تمہیں تخت پر بیٹھا دیکھ کر تیری ماں نے سکون کی سانس لی۔ سلیم کے ہاتھوں سے تصویر گر گئی۔ وہ عورت کون تھی؟ اس کے ذہن میں ایک ہی سوال گھومنے لگا۔  
سلیم نے اکبر کے سب سے پرانے اور وفادار خادم میر باقر کو بلایا جو اب بوڑھا ہو چکا تھا۔ تصویر دکھاتے ہوئے اس نے پوچھا، میر باقر، تمہیں معلوم ہے یہ عورت کون ہے؟ میر باقر نے گہری سانس لی اور کہا، شہزادے، یہ وہ راز ہے جو میں اپنے ساتھ قبر میں لے جانے والا تھا۔ تمہارے دادا شہنشاہ ہمایوں نے ایک غیر معروف عورت سے شادی کی تھی۔ جب اکبر پیدا ہوا تو سیاسی وجوہات کی بنا پر اسے مریم الزمانی بیگم کی گود میں دے دیا گیا۔  
سلیم کی آنکھوں میں حیرت کے آنسو آ گئے، تو کیا وہ فقیرہ... میر باقر نے سر ہلایا، ہاں شہزادے، وہ تمہاری اصل دادی تھیں۔ انہیں اپنے بیٹے کو دیکھنے کی اجازت نہیں تھی، اس لیے وہ فقیرہ کا بھیس بدل کر روزانہ محل آتی تھیں۔
سلیم نے کبھی اپنے والد سے اس راز کا ذکر نہیں کیا۔ لیکن جب وہ خود بادشاہ بن کر تخت نشین ہوا تو اس نے اپنی اصل دادی کی قبر پر ایک چھوٹا سا مزار بنوا دیا۔ آج بھی آگرہ کے پرانے قبرستان میں وہ قبر موجود ہے جس پر لکھا ہے، یہاں ایک ماں سوئی ہوئی ہے جس نے اپنے بیٹے کو بادشاہ بنتے دیکھا، لیکن کبھی اسے گلے نہ لگا سکی۔  
اس دن کے بعد جب بھی شہزادے سلیم اپنے محل کی کھڑکی سے باہر دیکھتے تو اسے لگتا کہ وہ بوڑھی فقیرہ اب بھی کہیں دور کھڑی مسکرا رہی ہے۔ اس کی آنکھوں میں وہی پیار بھری نظریں تھیں جو کبھی اس کے والد کو دیکھتی تھیں۔ یہ راز اب بھی قلعے کی دیواروں میں دفن ہے، لیکن شہزادے سلیم جانتے تھے کہ کچھ محبتیں موت سے بھی بڑی ہوتی ہیں۔  


سبق: تخت بدل سکتے ہیں، تاریخ بدل سکتی ہے، مگر ماں کی محبت کبھی نہیں بدلتی۔